دفع یا دفاع


مسلمانوں کے درمیان اتفاق و اتحاد کو قائم رکھنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اپنے بھائیوں کو دفع کرنے کے بجائے ان کا دفاع کیا جائے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ مسائل کی مکمل چھان بین کیے بغیر اپنے بھائیوں پر دین و سمیت سے غداری کا الزام لگانا ہرگز صحیح نہیں ہے۔ مسئلہ اگر فروعی ہے تو پھر اسی لحاظ سے بات کریں۔ اگر کوئی آپ کو شدت کی طرف لے جانے کی کوشش کرتا ہے تو آپ اس کا ہاتھ پکڑ کر چل دینے سے پرہیز کریں اور اپنے بھائی کا دفاع کریں۔


آج کل دیکھا جاتا ہے کہ کئی لوگ بات بات پر اپنے ہی سنی بھائیوں پر مسلک کی غداری کا الزام لگا کر اسے دفع کرنے کی خوب کوشش کرتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی غلطی ہے جس کا اثر مسلمانوں کے اتحاد پر پڑتا ہے۔ اتحاد کی سخت ضرورت ہے ورنہ ٹکڑوں میں تقسیم ہو جانے والے اکثر برباد ہوتے ہیں۔ 


کئی مسائل علمی ہوتے ہیں جو عوام کی سمجھ سے باہر ہوتے ہیں تو مقررین اور واعظین کو بھی اس بات کا لحاظ کرنا چاہیے کہ ایسے مسائل کو مکمل وضاحت کے ساتھ بیان کریں۔ اختلافی مسائل کی آگ عوام میں بھڑکا کر گھر میں سو جانے والے نہیں جانتے کہ یہ آگ اتحاد کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔ ایک مسلمان دوسرے کا دشمن بن جاتا ہے۔ لوگ علما کی گستاخی پر اتر آتے ہیں۔ جو معتبر علما ہیں ان پر بھی اعتبار ڈگمگانے لگتا ہے۔


اسلاف کو پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس معاملے میں حد درجہ محتاط تھے۔ وہ کسی پر بھی حکم لگانے سے پہلے بھرپور تحقیق کرتے تھے۔ اگر کسی کے دفاع کی گنجائش موجود ہوتی تو اس کا دفاع کرتے تھے۔ ہمیں بھی اسی طریقے کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ یہ قول بھی آپ نے سنا ہوگا کہ کسی کے قول میں ننانوے جہتوں سے کفر ثابت ہوتا ہو اور ایک پہلو ایمان کا ہو تو ہمیں ممکن تاویل کرنی چاہیے جب تک کہ صریح کفر نہ ملے۔ یہ بھی مسلمانوں کو متحد رکھنے میں معاون ثابت ہوتا ہے ورنہ دفع کرنا آسان ہے پر درست نہیں۔


امام غزالی لکھتے ہیں کہ دوست کی محبت بڑھانے میں یہ بات سب سے اہم ہے کہ اس کی عدم موجودگی میں جب کوئی اس کی برائی بیان کرے یا اس کی عزت کے درپے ہو تو اس کا دفاع کیا جائے، اپنے دوست کی مددو حمایت کے لیے کمر بستہ ہو جائے، اس بد گو کو خاموش کروایا جائے اور اس سے سخت کلام کیا جائے۔ ایسے وقت میں خاموش رہنا سینے میں کینہ اور دل میں نفرت پیدا کرتا ہے اور بھائی چارے کے حق میں کوتاہی ہے کیوں کہ رسول اللہ صلى اللہ تعالى عليہ والہ وسلم نے دو. مسلمانوں کو دو ہاتھوں کے ساتھ اس وجہ سے تشبیہ دی کہ ان میں سے ایک دوسرے کو دھوتا ہے، لہذا مسلمان کو چاہیے کہ اپنے مسلمان بھائی کی مدد کرے اور اس کا قائم مقام بنے۔ (احیاء العلوم، جلد دوم) 


عبد مصطفی

Post a Comment

Leave Your Precious Comment Here

Previous Post Next Post