جِیا کرتا ہے کیا یوں ہی مرنے والا؟
ہمارے پکے اور مضبوط گھروں کو دیکھیے.....
ہمارے کپڑوں پر نظر ڈالیے....
ہمارا کھانا پینا ملاحظہ کیجیے....
اور ہماری خواہشوں کی ایک فہرست بنائیے، پھر بس ایک سوال کو سامنے رکھیے کہ :
جیا کرتا ہے کیا یوں ہی مرنے والا؟
ہمارے حالات دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہمیں مرنا ہی نہیں ہے!
ہم سفر میں ہیں پر یہ بھول گئے کہ ہم مسافر ہیں!
ہم تو راستے کو ہی منزل سمجھ بیٹھے!
جیا کرتا ہے کیا یوں ہی مرنے والا؟
تجھے حُسنِ ظاہر نے دھوکے میں ڈالا!
اور یہ سچ جلد سے جلد جان لیجیے کہ:
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
ایک پل ہے کہ آپ سانسیں لے رہے ہیں بس اگلے پل میں یہ قصہ ختم ہو سکتا ہے۔
سب کچھ ختم، ساری خواہشیں ساتھ میں دفن ہو جائیں گی اور پھر پچھتانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوگا۔
جہاں میں ہے عبرت کے ہر سو نمونے
مگر تجھ کو اندھا کیا رنگ و بو نے
کبھی غور سے بھی یہ دیکھا ہے تو نے؟
جو آباد تھے وہ محل اب ہیں سُونے!
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے...
عبد مصطفی
Post a Comment
Leave Your Precious Comment Here