لکھنے والوں کے ساتھ پریشانیاں
ہم لکھتے کیوں ہیں؟
تاکہ اُسے کوئی پڑھے...،
اب ہمارے لکھے کو کوئی کیسے پڑھے گا؟
ہم اُسے عام کریں گے...،
پہلے زمانے کی بات تو الگ تھی پر آج لکھے ہوئے کو عام کرنے کا طریقہ الگ ہے جس میں وقت، مال اور کئی ساتھیوں کی ضرورت پڑتی ہے۔
مثال کے طور پر کسی کے پاس کافی علمی مواد ہے جسے وہ زمانے کے تقاضوں کے مطابق ترتیب دینا چاہتا ہے تاکہ عوام وخواص فائدہ اٹھا سکیں پر کیا یہ سوچنے جیسا ہی اتنا آسان ہے؟
اگر ایک رسالہ ہی تیار کرنا ہوا تو پہلے قلم اور کاغذ پر آغاز کرنا ہوگا پھر اُسے ٹائپ کروانا ہوگا پھر باری آتی ہے کمپوزنگ کی پھر کور ڈیزائننگ کی اور پھر ہارڈ کاپی آتے آتے ایک لمبا وقت اور کافی مال خرچ کرنا پڑتا ہے جو کہ ہر کسی کے بس کا نہیں۔
اگر صرف الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے ہی عام کرنا چاہے تو ایک نیٹورک، ایک پلیٹ فارم کی ضرورت پڑتی ہے جس پر سالوں محنت کرنی پڑے گی ورنہ آپ کے لکھے ہوئے کو صرف گنتی کے لوگ ہی پڑھ سکیں گے۔
دورِ حاضر میں تحریری کام بہت ضروری ہے، یہی اصل سرمایہ ہے۔
کئی موضوعات خالی پڑے ہیں یعنی اُن پر کام ہی نہیں ہو رہا، تقریر کرنے والوں کی کثرت کا عالم آپ جانتے ہیں پر لکھنے والے بہت کم ہیں اور لکھتے ہیں تو اُسے عام کرنےکے جدید ذرائع کا صحیح استعمال کرنے سے قاصر ہیں۔
ہمیں چاہیے کہ لکھنے والوں کا ساتھ دیں
اُن کی پریشانیوں کو دور کریں اُن کی حوصلہ افزائی کریں۔
عبد مصطفٰی
Post a Comment
Leave Your Precious Comment Here