یہ بچوں کو کیوں نہیں پڑھاتے؟
حضرت زین العابدین رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے غزوات (یعنی جو جنگیں آپ نے لڑیں، وہ) ہمیں اس طرح پڑھائی جاتی تھی جیسے قرآن پاک کی سورتیں یاد کروائی جاتی ہیں!
اسماعیل بن محمد بن سعد بن ابی وقاص مدنی سے روایت ہے انھوں نے کہا ہے:
"ہمیں والد گرامی حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے غزوات یاد کراتے تھے اور بار بار سناتے تھے۔ وہ فرماتے تھے کہ میرے نور نظر! یہ تمھارے آباؤ اجداد کا شرف ہے، اس کے ذکر کو ضائع نہ کرو۔"
امام زہری سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:
"غزوات کے علم میں دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے۔"
(سبل الھدی والرشاد، ج4، ص493 و ضیاء النبی، ج3، ص259)
آج اس امت کے نوجوان خوب پڑھنے لکھنے کے بعد اس قابل بنتے ہیں کہ کسی کے یہاں نوکری کر سکیں! یہ کیا ہی بری پڑھائی ہے۔
پڑھائی تو یہ ہے کہ آیات کے ساتھ غزوات پڑھائے جائیں۔ ایک طرف آخرت میں کامیابی حاصل ہوگی اور دوسری طرف دنیا بھی قدموں میں ہوگی۔
آج جس طرح کی پڑھائی رائج ہے یہ ہمیں بس نوکر بنا سکتی ہے اور دوسروں کے قدموں تک پہنچا سکتی ہے لیکن جس پڑھائی کی بات ہم کر رہے ہیں وہ بالکل مختلف ہے۔
کثرت سے جلسے ہوتے ہیں، تقریریں بہت ہوتی ہیں، اشعار خوب پڑھے جاتے ہیں، نعرے بازی بھی جم کر ہوتی ہے، ماہنامے درجنوں کے حساب سے چھپتے ہیں لیکن پھر بھی ترقی ہمیں دکھائی نہیں دیتی بلکہ ایسا لگتا ہے کہ بس ایک رسم ادا کی جا رہی ہے۔
اب ضرورت ہے کہ تعلیم میں آیات کے ساتھ غزوات کو رٹایا جائے۔ امت مسلمہ کے خون میں گرمی پیدا کی جائے۔ غفلت میں سوئے لوگوں کو مجاہد کی اذان سے اٹھایا جائے۔
عبد مصطفی
Post a Comment
Leave Your Precious Comment Here