عورتوں کے کارنامے


نبی کریم ﷺ کے اعلان نبوت کے بعد کافروں کی سرکشی بڑھ گئی اور ان کی طرف سے پہنچائی جانے والی اذیتوں کو مسمانوں نے بہت برداشت کیا۔

جہاں صحابہ کرام نے ان مظالم کے خلاف صبر و استقامت کے جوہر دکھائے وہیں صحابیات نے بھی ایسے صبر کا مظاہرہ کیا کہ ایک تاریخ رقم کر دی۔


تاریخ ان کی جراتوں اور بے باکی پر آج بھی حیران ہے! 

وہ ایک خاتون ہی تھی جنھوں نے دین حق کی خاطر سب سے پہلے خون کا نظرانہ پیش کیا۔

خواتین نے اپنے گھر بار لٹائے، خون کے رشتوں کو خوشی خوشی موت کے حوالے کر دیا، اپنے بچوں اور اہل خانہ کو اپنی نظروں کے سامنے سولی پر لٹکتے دیکھا! 

تیروں، تلواروں، خنجروں سے لہو لہان کیے جانے پر بھی ماتھے پر شکن نہ آنے دیا، 

اپنی آبائی سر زمین کوچھوڑ کر ہجرت فرمائی، 

صحرا، دھوپ، اندھیروں میں بھوک پیاس کی شدت برداشت کی، 

اپنی جانوں تک کو قربان کرکے دین کی شاخوں کو استقامت کے اوراق پر روشن کیا۔


تاریخ آج بھی ان کی قربانیوں کی شاہد ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں:

''یعنی ہم نہیں جانتی کے کسی مہاجرہ عورت نے ایمان لانے کے بعد منھ پھیرا ہو"

یہ وہ پاکیزا خواتین ہیں کہ جنھوں نے دین کی پاسداری میں اہم کردار ادا کیا۔


زمانۂ جاہلیت میں ایسے کئی بے جا رسم و رواج تھے جن سے معاشرے میں بڑے سنگین مسائل پیدا ہوتے تھے۔ امہات المومنین نے نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کے تحت اپنی حیات طیبہ میں بے شمار قولی و فعلی خدمات انجام دیں۔ خواتین کے مسائل و معاملات ہی نہیں بلکہ قرآن و سنت کو محفوظ کرنے اور امانت داری کے ساتھ ان کو امت تک منتقل کرنے میں بھی زبردست فریضہ سر انجام م دیا۔

اور جب دوسری صدی ہجری میں پورے عالم اسلام میں احادیث کی روایت و تدوین کا سلسلہ شروع ہوا تو جن خواتین کے پاس مجموعے تھے ان سے وہ حاصل کیے گئے۔ حدیث کی تحصیل کے لیے مردوں میں محدثین و رواة کی طرح عورتوں نے بھی گھر بار چھوڑ کر دور دراز ملکوں کا سفر کیا اور ان عورتوں کے لیے محدثین و شیوخ کی درس گاہوں میں مخصوص جگہیں رہا کرتی تھیں جس میں وہ مردوں سے الگ رہ کر سماع کرتی تھیں اور اسی طرح انھی عورتوں میں سے بہت سی حافظہ، قاریہ اور علم تفسیر وغیرہ میں مہارت رکھتی تھیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ میدان وعظ و نصیحت میں بھی عورتوں نے بڑے کارنامے انجام دیے ہیں۔

نیز رشدوہدایت، تزکیہ نفس، شعر وادب، خطاطی و کتابت وانشاء، اذکار کی تعلیم و تربیت میں بھی بہت زیادہ نمایاں تھیں اور رہیں۔


چوتھی صدی میں قرآنی مدارس کا انتظام ہوا۔ بنات الاسلام کی طرف سے سب سے پہلا قرآنی مدرسہ مسجد اقصیٰ کے شہر فاس میں ۲۴۵ھ میں قائم ہوا جو آج بھی جامعہ قزوین کے نام سے موجود ہے اور اس کی برکت سے کئی عورتیں علوم دینیہ کی طرف شوق و ذوق کے ساتھ متوجہ ہوئیں اور اسلام کی سر بلندی اور اشاعت علم میں خوب خدمات انجام دیں. 

 

آج بھی خواتین کو چاہیے کہ قرآن کے بنیادی علوم سیکھیں کیونکہ قرآنی علوم کا سیکھنا فرض ہے کہ اسی کے تحت جملہ علوم ہیں۔ معیشت، سائنس یا دوسرے علوم جنھیں عصری علوم کہا جاتا ہے ان کا سیکھنا ثانوی حیثیت رکھتا ہے وہ بھی کئی قیودات کے ساتھ مگر دینی علوم بے حد ضروری ہیں۔

افسوس ہم اس بات کا انکار نہیں کر سکتے کہ عورتیں مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگین اور بس نام کی آزادی کے نشے میں چور ہو کر علوم دینیہ سے کوسوں دور ہو چکی ہیں اور جب المیہ یہ ہے تو پھر کارناموں پر کہنا مزید تکلیف کا سبب بنے گا۔ اللہ تعالی ایمان رکھنے والی عورتوں کو مقصد زندگی اور ایمان کی چاشنی عطا فرمائے، صحابیات کا فیض ان پر نازل فرمائے۔


دختر ملت

جناب غزل صاحبہ

Post a Comment

Leave Your Precious Comment Here

Previous Post Next Post