غوث پاک اور حضرت اویس قرنی ۔ ایک واقعہ 

ایک واقعہ کچھ اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ جب حضرت عمر فاروق اور حضرت علی رضی اللہ عنھما، حضرت اویس قرنی سے ملاقات کرنے کے لیے تشریف لے گئے تو ان سے فرمایا کہ ہماری مغفرت کے لیے دعا فرمائیں اور اس امت کی بخشش کے لیے بھی دعا فرما دیں۔ حضرت اویس قرنی نے دعا فرمائی کہ یا اللہ اس امت کو بخش دے؛ آسمان سے ندا آئی کہ میں نے آدھی امت کو بخش دیا۔ اس پر حضرت اویس قرنی نے عرض کیا کہ یا اللہ آدھی کو ہی کیوں؟ پوری امت کو بخش دے۔ ندا آئی کہ آدھی امت کو میں نے تیری دعا سے بخش دیا ہے اور آدھی امت کو عبد القادر کی دعا سے بخش دوں گا۔ عرض کی کہ یہ عبد القادر کون ہے؟ فرمایا کہ میرا ولی ہے اور اس امت میں پیدا ہوگا، اس کا قدم تمام ولیوں کی گردنوں پر ہوگا۔ یہ سن کر حضرت اویس قرنی نے کہا کہ میری یہ گردن آج ہی ان کے لیے حاضر ہے، میں ابھی اپنا سر ان کے لیے جھکاتا ہوں۔

اللہ تعالی ہمارے مقررین کے حال پر رحم فرمائے۔ یہ مقررین بے لگام ہو چکے ہیں۔ جو چاہتے ہیں بیان کرتے ہیں۔ جو لکھا ہے وہ بھی اور جو نہیں لکھا ہے وہ بھی، دونوں کو ملا جلا کر بیان کرتے ہیں۔ اب یہ روایت نہ جانے انھیں کس کتاب میں مل گئی۔ اگر کسی کتاب میں ہے بھی تو اس کتاب کی حیثیت کیا ہے، پتا نہیں۔ ان سب باتوں سے انھیں مطلب ہی نہیں ہے۔ انھیں تو بس ایسی روایت چاہیے کہ جس میں کچھ نیا ہو۔ یہ روایت تو جس نے بیان کی، دلیل دینا اس پر لازم ہے البتہ ہمارے اکابر علما کے درمیان تو یہ اختلاف تک موجود ہے کہ حضرت اویس قرنی کا وجود تھا یا نہیں، بعض اکابرین نے اس کا انکار کیا ہے (اللہ اکبر) بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ایک طرف علمی اختلافات میں یہ باتیں موجود ہیں اور دوسری طرف ہمارے مقررین ہیں کہ کچھ بھی بیان کر دیتے ہیں، علمی باریکیوں سے ان کا دور کا واسطہ نہیں ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے نوجوان بدمذہب فرقوں سے متاثر ہو رہے ہیں۔ ایک پڑھا لکھا طبقہ ان سب چیزوں سے نفرت کرنے لگا ہے۔ اب ضرورت ہے کہ علمی بیانات دیے جائیں اور ایسے قصے کہانیوں کو بیان کرنے سے توبہ کی جائے۔ کاش کہ ہمارے مقررین اس بات کو سمجھیں۔

عبد مصطفی 
محمد صابر قادری

Post a Comment

Leave Your Precious Comment Here

Previous Post Next Post