بھگوا لو ٹریپ

آخر مسلم لڑکیاں کافروں کے پاس کیوں جا رہی ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم خود بھیج رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب بڑا آسان ہے، بالکل صاف نظر آ رہا ہے، بس قبول کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ تعلیم کے نام پر ہم خود لڑکیوں کو ہلاکت کے لیے پیش کر رہے ہیں؟ کالجز کے نام پر لڑکیاں کھلے عام باہر نکل رہی ہیں اور اجنبی مردوں کے ساتھ دن رات ان کا اٹھنا بیٹھنا ہو رہا ہے پھر یہ تو ہونا ہی تھا! گاڑیاں، موبائلس وغیرہ دے کر ماں باپ پوری اجازت دے رہے ہیں کہ رات دن جہاں جانا چاہو جا سکتی تو پھر کیسے امید کی جائے کہ لڑکیاں غیروں کے پاس نہیں جائیں گی؟ اگر اس قدر انتظام کرنے کے بعد آپ امید کرتے ہیں کہ لڑکیاں صحیح سلامت رہیں تو یہ بالکل ایسا ہے جیسا بلندی سے کسی پتلی کانچ کو زمین پر پھینک دیا جائے اور اس کے نا ٹوٹنے کی امید کی جائے۔

اس طرح کی روایتیں ملتی ہیں کہ لڑکیوں کو لکھنا نہ سکھایا جائے، انھیں بالا خانوں میں نہ ٹھہرایا جائے، ان کو سورہ یوسف کی تفسیر نہ پڑھائی جائے، ان کا گھر سے نکلنا فتنہ ہے وغیرہ، ان سب سے کیا سمجھ میں آتا ہے؟ یہی کہ لڑکیاں نازک ہیں اور ان کا معاملہ بھی نازک ہے لہذا احتیاط کی سخت ضرورت ہے لیکن اب لڑکیوں سے لے کر ان کے ماں باپ سب آزاد خیال ہو چکے ہیں اور عقل تب ٹھکانے آتی ہے جب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔

بالکل سیدھا سیدھا کہا جائے تو بھگوا لو ٹریپ کو روکنے کے لیے لڑکیوں کو روکنا ہوگا، ان پر وہ پابندیاں لگانی ہوں گی جو ان کو بھیڑیوں سے بچا سکے، یہ پابندیاں کوئی قید نہیں، لڑکیوں کو بھی سمجھنا ہوگا کہ عزت والی زندگی کون سی ہے کہ جس میں دنیا و آخرت دونوں ہیں اور ذلت کہاں ہے۔

نرمی سے تو نرمی سے ورنہ سختی سے ہی روک لگانا ضروری ہے، جس کی بیٹی ہے وہ اسے کالج نام کے "کوٹھے" سے دور رکھے اور تعلیم کے لیے اس کی زندگی، اس کا ایمان اور سب کچھ داؤں پر نہ لگائے بلکہ گھر میں بنیادی تعلیم پر ہی بس کرے۔

بہت کچھ ہے سمجھنے کے لیے، کہنے کے لیے اور سب سے اہم کرنے کے لیے لہٰذا کریں ورنہ کرنے والے اپنا کام کر رہے ہیں۔

عبد مصطفی 

Post a Comment

Leave Your Precious Comment Here

Previous Post Next Post