دین کا کام لوگ کس طرح کرتے ہیں؟

دین کا کام کرنے والے کئی قسم کے لوگ ہیں، ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو اس کام کو دوسرے درجے پر رکھتی ہے یعنی پہلے درجے میں پیسے کمانا، کھانا پینا، گھومنا پھرنا اور دوسرے عیش و آرام کے سامان یا کہہ لیں کہ نہ ختم ہونے والی ضرورت کی اشیاء کی طلب میں لگے رہنا ہے۔ یہ سب پہلے درجے میں آتا ہے اور اس میں سب سے پہلے آتا ہے "مال کمانا" اور باقی چیزیں اسی کے دم سے ہوتی ہیں تو اسے ہم مجموعی طور پر "پیشہ" کَہ لیتے ہیں کہ پہلا درجہ ہے "پیشے" کا جسے انگریزی میں پروفیشن یا بزنس وغیرہ کَہ لیں پھر باری آتی ہے دین کے کام کی، اب اس میں ہوتا یہ ہے کہ پچاس فی صد سے زیادہ وقت پیشے میں چلا جاتا ہے اور جو پچاس فی صد بچتا ہے اس میں گھر پریوار، دوست یار اور نہانا سونا وغیرہ سب شامل ہے تو اس حساب سے بہت کم وقت ایسا بچتا ہے کہ جس میں دین کا کام کیا جا سکے، جب بھی وقت ملتا ہے تو دوسرے درجے پہ نظر جاتی ہے کہ چلو دین کا کام کرتے ہیں اور اتنے وقت میں بھی تسلسل نہیں ہوتا یعنی وہ وقت روز نہیں ملتا تو پھر دین کا کام بھی نہیں ہو پاتا۔

اب ایک قسم ان لوگوں کی ہے کہ جن سے دین کا کام اس طرح کروایا جاتا ہے کہ پہلے درجے میں جو پیشہ ہے اسی میں دین شامل کر دیا جائے یعنی یوں کَہ لیں کہ وہ دین کا کام ہی اس کا "پیشہ" بن جائے۔ ایسا کرنے سے ہوتا یہ ہے دین کا کام پہلے درجے پر رکھا جاتا ہے یعنی پہلے وہ دین کا کام پیشے کے طور پر کرے گا اور زیادہ وقت اسی لیے دے گا کہ اس کو اسی سے مال حاصل ہوگا تو یہاں بھی دین کا کام ویسا نہیں ہوپاتا جیسا ہونا چاہیے کیوں کہ اصل مقصد پیسہ کمانا ہو جاتا ہے اور دینی ذمہ داری سمجھ کر بہت کم لوگ کام کرتے ہیں باقی روایتی ڈیوٹی کرنے والوں کی کثرت ہے۔

اب ایک قسم آتی ہے ان لوگوں کی جو حقیقی معنوں میں دین کا کام کرنے والے ہیں، اخلاص کے ساتھ کرنے والے ہیں، ان کے لیے دین کا کام پہلے درجے پر ہوتا ہے اور پیشے کو دوسرے درجے پر رکھتے ہیں، دین کو پیشہ بھی نہیں بناتے ہیں، یہ لوگ کھل کر کام کرتے ہیں، حق بولتے ہیں، کچھ انقلابی کام کر جاتے ہیں، کسی کی چاپلوسی نہیں کرتے، انھیں خوف نہیں ہوتا، یہ اللہ کی رضا چاہتے ہیں، انھیں غم نہیں کہ کون ناراض ہوگا اور کون دنیا والا راضی ہوگا، ان کو جزا والے دن سے امید ہے، اور بھوکے رہ کر بھی یہ دین کا کام کرتے ہیں، مصیبتیں سہتے ہیں، مخالفت جھیلتے ہیں، یہ کسی کا بھی رد کر سکتے ہیں کیوں کہ مستقل ہو کر کام کرتے ہیں، ایسے ہی لوگ حقیقی معنوں میں دین کا کام کرتے ہیں، ہمارے اکابرین نے اسی طرح کام کیا چاہے جیسے بھی حالات آئے پر انھوں نے دین کو پہلے درجے پر رکھا، بھوکے رہ کر بھی کتابیں پڑھی اور لکھی، پوری زندگی غربت میں گزار کر بھی دین کا کام کرتے رہے، یہی وہ لوگ ہیں کہ جن کے کام سے آج سب فائدہ اٹھا رہے ہیں، یہی لوگ حقیقی معنوں میں دین کا کام کرنے والے ہیں۔

عبد مصطفی

Post a Comment

Leave Your Precious Comment Here

Previous Post Next Post