روزانہ اٹھارہ گھنٹے مطالعہ

جب ہم بزرگوں کے بارے میں پڑھتے ہیں تو کئی جگہوں پر "اٹھارہ گھنٹے مطالعے" کا ذکر ملتا ہے۔ یہ پڑھ کر حیران ہونا یقینی سی بات ہے۔ میری زندگی میں بھی ایک دور ایسا گزرا ہے کہ میں روزانہ "اٹھارہ گھنٹے" مطالعہ کیا کرتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جسے میں اپنا "سنہرا دور" مانتا ہوں۔ میں یہ تحریر کچھ لوگوں کے سوال کرنے پر لکھ رہا ہوں جنھوں نے پوچھا ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک دن میں اٹھارہ گھنٹے مطالعہ کیا جائے۔

اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ پیسے کمانے کے لیے چھے سے سات گھنٹے دے کر، پھر گھومنے پھرنے میں ایک دو گھنٹے لگا کر اور آٹھ دس گھنٹے سونے کے بعد یہ ممکن ہو جائے تو ایسا بالکل نہیں ہو سکتا۔ روزانہ اٹھارہ گھنٹے مطالعہ کرنے کا صاف مطلب ہے کہ آپ کو کئی چیزوں سے خود کو آزاد کرنا ہوگا۔ میں نے جب 2011 میں دسویں کلاس (میٹرک) کا امتحان دیا اور اس کے بعد کالج میں داخلہ لے لیا لیکن کلاس کرنے نہیں جاتا تھا اور کوئی کام بھی نہیں تھا۔ پورا پورا دن بس گھومنے پھرنے میں گزرتا تھا۔ اسی درمیان دینی کتابوں کی طرف رجحان بڑھنا شروع ہوا اور ایسی لذت حاصل ہوئی کہ راستہ چلتے، اٹھتے بیٹھتے اور کھانا کھاتے ہوئے بھی بس کتابوں پر ہی نظر ہوتی۔ مجھے حاجت کے لیے جب جانا پڑتا تو بہت گراں گزرتا اور میں جلدی سے جلدی آنے کی کوشش کرتا تاکہ پھر سے مطالعہ شروع کیا جا سکے۔ جب کسی چیز کا شوق ہو اور جنون سر پر سوار ہو تو نہ نیند آتی ہے اور نہ بھوک ستاتی ہے، میرے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ تھا۔

اگر آپ بھی اپنے اندر یہ جنون پیدا کر لیں اور دوسرے کاموں سے خود کو آزاد کر لیں تو یہ ممکن ہے ورنہ نہیں۔ میرا اس طرح مطالعے کا سلسلہ کچھ سالوں تک چلا جس میں ہزار سے زائد کتابیں پڑھ لیں اور ان میں ایسی کتابیں بھی شامل ہیں جو کئی کئی جلدوں پر مشتمل تھیں۔ پھر مصروفیات بڑھتی چلی گئی اور یہ کم ہوتا گیا لیکن آج بھی اکثر وقت کتابوں پر ہی صرف ہوتا ہے اب چاہے مطالعہ ہو، تحقیق ہو، تحریر ہو، نظر ثانی ہو، ترتیب ہو یا پھر اشاعت سے جڑا کام ہو۔ ابھی بھی رات کے ساڑھے تین بجے ہیں اور میں یہ لکھ رہا ہوں۔

ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً چالیس فی صد نوجوان آٹھ گھنٹے سے زیادہ سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں! اور ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو 12-14 گھنٹے بس موبائل فون پر لگے رہتے ہیں تو پھر اٹھارہ گھنٹے مطالعہ کرنا کیسے ناممکن ہو سکتا ہے؟ باقی بچے چھے گھنٹوں میں ایک نیند اور دوسری ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا، ایک جنون ہونا چاہیے۔

عبد مصطفی

Post a Comment

Leave Your Precious Comment Here

Previous Post Next Post