تبرکات کا دھندا
کوئی بھی کہیں سے بھی کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ بال، نعلین اور کپڑا وغیرہ فلاں بزرگ کا ہے اور بھولے بھالے لوگ اس پر عقیدت اور مال کا چڑھاوا چڑھانا شروع کر دیتے ہیں۔ ہم تبرکات کی عظمت کا انکار نہیں کرتے لیکن فرضی تبرکات کا جس طرح بازار گرم ہے، اس سے اتفاق بھی نہیں کر سکتے۔
ہماری سنی عوام اتنی بھولی ہے کہ ایک سلائی مشین کی تصویر جس میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ یہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی مشین ہے، اسے بھی عقیدت کے ساتھ عام کرنا شروع کر دیتے ہیں اور یہ تک نہیں سوچتے کہ اس مشین کا ایجاد کب ہوا۔
ہمارے ملک ہندستان میں درجنوں نعلین ایسے مل جائیں گے جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے ہیں۔ اب سوچنے والی بات ہے کہ اتنے نعلین ہندستان میں کہاں سے آ گئے؟ کیا یہ تبرکات کے نام پر دھندا نہیں ہے؟
کہیں سے سننے میں آیا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے بالوں کی زیارت کروائی جا رہی ہے!
علامہ اسید الحق قادری نے لکھا تھا کہ کسی شہر کے بارے میں انھیں معلوم ہوا کہ جہاں اس تختی کی زیارت کروائی جا رہی ہے جس پر حسنین کریمین کا تحریری مقابلہ ہوا تھا جبکہ اس روایت کی ہی اصل نہیں ملتی۔ پھر آپ لکھتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہیں اس جنتی سیب کی بھی زیارت کروائی جانے لگے جس سے اس تختی کا فیصلہ ہوا تھا تو دنیا میں جنتی پھل دیکھنے کا شرف حاصل ہو جائے گا۔ (ملخصاً: نقد و نظر)
ماضی قریب میں جن بزرگوں کا انتقال ہوا اور جو ابھی با حیات ہیں ان کے بھی تبرکات کے ساتھ عجیب و غریب معاملات ہو رہے ہیں۔ کوئی اپنے پیر کے بالوں کو موئے مبارک بول کر تقسیم کر رہا ہے اور پیر صاحب خاموش ہیں! کوئی کرتے اور عمامے کے کپڑوں کے ٹکڑے کو فروخت کر رہا ہے اور لوگ بڑی بڑی رقم دے کر اسے خرید رہے ہیں! ان سب کی حدوں کو پہچاننا ضروری ہے، اس طرح عقیدت میں حد سے بڑھنا درست نہیں ہے۔
تبرکات کی تعظیم ضروری ہے لیکن ہم آپ کی توجہ اس کے نام پر چل رہے دھندے کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ اصل اور فرضی میں فرق کا شعور پیدا کریں اور اپنی عقیدت کا غلط استعمال ہونے سے بچائیں۔
عبد مصطفی
Post a Comment
Leave Your Precious Comment Here