ظہر کی نئی اذان

میں پہلے مزدوری کرتا تھا (عمارتوں کی تعمیر وغیرہ میں)، دوپہر ایک بجے کھانے کے لیے چھٹی ملتی تھی جو دو بجے تک رہتی تھی۔ ہم اذان سن کر چھٹی کرتے تھے کیوں کہ تمام مسجدوں میں ایک بجے ظہر کی اذان ہوتی تھی۔ ہمارے پاس موبائل فون یا گھڑی وغیرہ نہیں ہوتی تھیں۔ ہم ایسی ایسی جگہوں پر کام کرتے تھے کہ آس پاس وقت معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ ہمارے ساتھ کئی طرح کے لوگ کام کرتے تھے جن میں غیر مسلم بھی ہوتے تھے۔ وہ بھی اذان سن کر ہی چھٹی کرتے تھے پھر ہوا یہ کہ ہمارے شہر میں خود کو اہل حدیث کہنے والے آئے اور دھیرے دھیرے اپنی مسجدیں بنا لیں اور بارہ بجے اذان دینا شروع کر دیا! 

اب جب اذان بارہ بجے ہونے لگی تو ہمارے ساتھ غیر مسلموں کو بھی پریشانی ہوئی۔ وہ ہم سے سوال کرتے کہ ایسا کیا ہوا کہ ایک زمانے سے جو اذان ایک بجے ہوتی تھی وہ اب بارہ بجے کیوں ہونے لگی؟ ہمیں تو پتا تھا لیکن انھیں سمجھانا آسان نہیں تھا۔ دین میں نئے کام داخل کرنے کا طعنہ دینے والوں نے ہی خود نئے نئے کام ایجاد کیے ہیں۔ 

ہمارے علاقے میں پہلے ان لوگوں کا نام و نشان نہ تھا۔ پھر جب یہ کہیں سے آئے تو یہاں کے بھولے بھالے مسلمانوں کو اپنے جال میں پھنسایا اور کہیں چکنی چپڑی باتوں سے تو کہیں مال دے کر بھی لوگوں کو اپنی طرف مائل کیا۔ جب انھوں نے نئی نئی باتیں بیان کرنا شروع کیں تو مسلمانوں کو بڑی مشکلات پیش آئیں۔ آپس میں بحثیں شروع ہو گئیں۔ مار پیٹ تک ہوئی۔ مسجدوں میں تالے تک لگے۔ الحاصل یہ کہ جو مسلمان امن و سکون کے ساتھ زندگی بسر کر رہے تھے ان کے درمیان فتنہ فساد کی آگ جلا دی گئی اور اپنے سوا پوری امت پر شرک کے فتوے لگائے گئے! 

اللہ تعالی مسلمانوں کو ان کے فتنے سے محفوظ رکھے۔

عبد مصطفی
محمد صابر قادری
دسمبر ١٧، ٢٠٢٣ء

Post a Comment

Leave Your Precious Comment Here

Previous Post Next Post