گدھے کی تعظیم

ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ درازگوش پر سوار ہو کر حضرت سعد بن عبادہ کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے-

(بخاری، باب عیادۃ المریض راکبا و....، ر5663، ملتقطاً)

اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے علامہ غلام رسول سعیدی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں مذکور ہے کہ نبی کریم ﷺ گدھے پر سوار ہو کر حضرت سعد بن عبادہ کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے، اس لیے گدھے پر سوار ہونے کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے- ملا علی قاری حنفی علیہ الرحمہ نے (تو یہاں تک) لکھا ہے کہ جو شخص گدھے پر سواری کو کمتر اور حقیر جانتا ہے وہ خود گدھے سے بھی زیادہ کمتر اور حقیر ہے اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ گدھے پر سوار ہونا سنت ہے؛ گاؤں اور دیہات میں گدھے پر سواری کے مواقع ہیں-

(انظر: نعم الباری فی شرح صحیح البخاری، ج11، ص923)

سبحان اللہ! جس چیز کو حضور ﷺ سے نسبت ہو جائے وہ بھی معظم ہو جاتی ہے- حضور سے محبت کرنے والے ان تمام چیزوں سے محبت کرتے ہیں جس کی نسبت حضور سے ہو! 
یہ کیسا عقیدہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ کے علم کو جانوروں اور پاگلوں سے تشبیہ دی جائے اور پھر ایمان کا اور عشق رسول کا دعوٰی کیا جائے؟ عشق تو یہ کہتا ہے کہ جس گدھے پر نبیوں کے امام نے سواری فرمائی ہے اب اس سواری کو حقیر سمجھنے والا خود گدھے سے زیادہ کمتر ہے-

عبد مصطفی

Post a Comment

Leave Your Precious Comment Here

Previous Post Next Post