عشق کا سفر
حضرت سرّی سقطی رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ تعالیٰ کو ایک پرچہ دیا اور کہا کہ یہ تمھارے لیے 700 قصّوں یا بلند پایہ باتوں سے بہتر ہے۔
اس پرچے میں لکھا تھا :
ولما ادعیت الحب قالت کذبتنی
فما لی اری الأعضاء منک کواسیا
فما الحب حتی یلصق القلب بالحشا
و تذبل حتی لا تجیب المنادیا
و تنحل حتی لا یبقی لک الھوی
سوی مقلۃ تبکی بھا و تناجیا
"یعنی جب میں نے محبت کا دعویٰ کیا تو محبوبہ نے کہا کہ تو نے مجھ سے جھوٹ کہا ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو تیرے اعضاء (Body Parts) اسے چھپا نہیں سکتے،
محبت میں تو دل انتڑیوں کے ساتھ چپک جاتا ہے اور اتنا مرجھا جاتا ہے کہ پکارنے والے کو جواب تک نہیں دے سکتا۔
اور تو اس قدر کمزور ہو جائے کہ محبت تیری آنکھوں کے سوا کچھ نہ چھوڑے اور اسی سے روئے اور اسی کے ذریعے بات کرے"
(رسالہ قشیریہ، ص554)
حقیقی محبت انسان کو حقیقت کا نظارہ کرواتی ہے۔
اس کے لیے خود کو عشق کی آگ میں جلانا پڑتا ہے۔
یہ سفر سخت ہے پر اسے طے کرنے والے جو مناظر دیکھتے ہیں اس کی لذّت وہی جانتے ہیں۔
عبد مصطفیٰ
Post a Comment
Leave Your Precious Comment Here