عظمتِ صحابہ 


اللہ تعالی نے اُنھیں حضور ﷺ کے (وصال کے) بعد (زمین میں آپ ﷺ کا) خلیفہ بنایا اور حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، اور حضرت علی رضی اللہ عنھم، جمیع امت کے لیے باعث برکت ہیں۔


اللہ تعالی نے (ان صحابہ ہی کے متعلق) فرمایا ہے: اللہ اُن سے راضی ہو گیا ہے اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے ہیں، یہی اللہ (والوں) کی جماعت ہے۔


کہا جاتا ہے:

جس نے حضرت ابوبکر سے محبت کی اس نے دین کی اقامت کا فریضہ سر انجام دیا۔ جس نے حضرت عمر سے محبت کی اس نے راہ دین کو واضح کیا۔

اور جس نے حضرت عثمان سے محبت کی وہ نور الٰہی سے مستنصر ہوا اور جس نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ سے محبت کی اس نے دین کی پختہ رسّی کو مضبوطی سے تھام لیا۔

جس شخص نے حضور ﷺ کے صحابہ کے بارے میں کلمات خیر کہے وہ نفاق سے بری ہو گیا۔

ان صحابہ میں سے ایک کے اتنے فضائل ہیں جو اپنی کثرت کے باعث حدِ شمار سے باہر ہیں۔


رسول ﷺ نے صحابہ کی تعریف فرمائی ہے اور اُنھیں ستاروں سے تشبیہ دی ہے۔ اس تشبیہ کے ذریعے آپ ﷺ نے اپنی امت کو اُن کے امور دین میں (حصول رہنمائی کے لیے) صحابہ کی اقتدا پر ابھارا ہے جیسے کہ وہ اپنے دنیاوی امور میں اپنی ضروریات کے لیے بحر و بر کی تاریکیوں میں (راستہ جاننے کے لیے) ستاروں سے رہنمائی لیتے ہیں۔


رسول ﷺ نے فرمایا: بے شک میرے صحابہ کی مثال آسمان پر ستاروں جیسی ہے، ان میں سے جس کو بھی تھامو گے ہدایت پا جاؤ گے اور میرے صحابہ کا اختلاف (بھی) تمہارے لیے باعث رحمت ہے۔


حضرت نُسیر ذعلوق رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت محمد ﷺ کے اصحاب کو برا مت کہو، کیونکہ صحابہ میں سے کسی ایک کا (حضور ﷺ کی صحبت میں گزرا ہوا) ایک لمحہ تمھاری زندگی بھر کے اعمال سے بہتر ہے۔


رسول ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالی نے (تمام رسولوں میں سے) مجھے چنا اور میرے واسطہ سے (پوری امت میں سے) میرے صحابہ کو چنا سو اس نے ان میں سے میرے لیے وزراء، معاونین و مددگار اور سسرالی رشتہ دار بنائے لہٰذا جس نے انھیں گالی دی تو اس پر اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔ قیامت کے روز اللہ تعالی اس کے کسی فرض و نفل کو قبول نہیں کرے گا۔


حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ کی خامیاں اور برائیاں بیان نہ کیا کرو کہ ان کے حوالے سے تمھارے دل باہم اختلاف کا شکار ہوجائیں گے؛ بلکہ میرے صحابہ کے محاسن اور خوبیوں کا تذکرہ کیا کرو یہاں تک کہ تمھارے دل ان کی نسبت باہم اکٹھے ہو (کر متفق ہو) جائیں۔


(اخرجہ الدیلمی فی مسند الفردوس، 7362/5/الرقم 31) 


ماخوذ : عظمتِ صحابیت اور حقیقتِ خلافت


حاصل کلام یہ ہے کہ عظمتِ صحابہ بہت ہی بلند و بالا ہے۔

دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں توہین صحابہ رضی اللہ عنہ سے محفوظ فرمائے۔


عبد مصطفی 

دلبر راہی اصدقی

Post a Comment

Leave Your Precious Comment Here

Previous Post Next Post